بارش
وطن سے جو بھی ہجرت کر گیا تھا
وہ تھوڑی دور جا کر مر گیا تھا
جو میری جان تھے ، ایمان بھی تھے
انھی لوگوں سے کل میں ڈر گیا تھا
گیا تھا میں جدھر بھی ، جس جگہ بھی
مرے پیچھے وہ جادوگر گیا تھا
وہی بیعت جو مجھ سے ہو نہ پائی
اسی بیعت پہ میرا سر گیا تھا
میں حیراں ہوں مری چاہت میں انصر
کہاں تک وہ پری پیکر گیا تھا